تنہائی انسان کا مقدر ہے

معاملات زندگی بہت حسیں ہیں مگر حالات یہ کہتے ہیں کہ اعتبار نہ کر، کبھی تجسس اور کبھی طلب انسان کو چلتا رہنے پہ مجبور کرتے ہیں، اور کئی بار ضرورت بھی متحرک رکھتی ہے، اپنی ذات کیلئے نہیں تو کم از کم ان کیلئے انسان متحرک رہتا ہے جو اس سے لاتعداد امیدیں وابستہ کیئے ہوئے ہوتے ہیں۔
بے خبری میں آنے والا یہ بے خبری کا مسافر اکثر یہی سمجھتا ہے کہ وہ کسی قافلے کا حصہ ہے مگر حقیقت میں تو وہ تہنا ہی ہوتا ہے، بے خبری کی اکیلے آمد اور اچانک اکیلا ہی گم۔  کبھی زندگی کے قافلے اسکا ساتھے بنتے ہیں اور کبھی وہ قافلے بدلتا ہے اور کئی بار قافلے بناتا ہے، مگر رہتا اکیلاے کا اکیلا ہے۔ شاید کچھ بھی نیا نہیں ہے سوائے منجمد ماضی کے، جسے اکثر غلط فہمی سے مستتقبل سمجھ بیٹھتے ہیں۔
زندگی کی لکھی ہوئی کتاب کے حرف اپنے وقت پہ اترتے ہیں، کچھ بھی تو حادثاتی نہیں ہے اس دنیا میں، شاید وہ خود بھی۔۔ محبت کا طلبگار رہتا ہے، پانا چاہتا ہے اور کبھی پا کر کھو بیٹھتا ہے، مگر تنہائی اس پہ مہر کی طرح ثبت ہے۔

احساسات کو زباں ہے میسر —!

لکھا تو لکھتا ہی چلا گیا، ہر احساس کو اک لفظ چاہیے اور جب الفاط کی بدلیاں احساسات کے آسماں پہ اکٹھی ہوتیں تو پھر خوب برستیں ہیں، جل تھل ہوجاتا ۔۔۔ قلم احساسات کا بہترین ترجماں ہے جو کبھی خاموش نہیں رہ سکتا، ہر دور میں کسی نہ کسی کی زباں بنتا رہا اور بنتا رہے گا۔ سیکھنے کا عمل ہر لحظہ جاری رہتا ہے چاہے کوئی اس میں شمولیت اختیار کرے یا کنارہ کشی کرے، افراد زندگی کی دوڑ میں ہر نئے دور میں نت نئے تجربات سے گزرتے ہیں اور آنے والی نسلیں گذشتہ نسلوں کا علمی سفر یقیننا” طے کر چکی ہوتی ہیں، اور وہ عہد جدید میں پنپنا خوب جانتے ہیں۔ دنیا کسی واضع تبدلی کی طرف گامنزن ہے، اس عہد میں شاید سچائی پہ کوئی خوبصورت ملمعہ کاری جچ نہ سکے، اب خبر اپنے حقیقی منبع سے اور ذرائع سے افراد تک پہنچتی ہے جسے شاید کوئی رنگ دینا مشکل ہو چکا۔ حالانکہ جدت کے ڈنکے علن علانیہ بج رہے ہیں مگر پھر بھی کہیں نہ کہیں کچھ جمود بھی اپنا وجود رکھتا ہے۔ شعور ارتقا کی منازل طے کرتا پہچان کی سلطنت میں داخل ہوچکا ہے، وسائل کے انبار لگے ہیں شاید کوئی جستجو بیکار نہ رہے ۔۔۔ (محمد الطاف گوہر)