معاملات زندگی بہت حسیں ہیں مگر حالات یہ کہتے ہیں کہ اعتبار نہ کر، کبھی تجسس اور کبھی طلب انسان کو چلتا رہنے پہ مجبور کرتے ہیں، اور کئی بار ضرورت بھی متحرک رکھتی ہے، اپنی ذات کیلئے نہیں تو کم از کم ان کیلئے انسان متحرک رہتا ہے جو اس سے لاتعداد امیدیں وابستہ کیئے ہوئے ہوتے ہیں۔
بے خبری میں آنے والا یہ بے خبری کا مسافر اکثر یہی سمجھتا ہے کہ وہ کسی قافلے کا حصہ ہے مگر حقیقت میں تو وہ تہنا ہی ہوتا ہے، بے خبری کی اکیلے آمد اور اچانک اکیلا ہی گم۔ کبھی زندگی کے قافلے اسکا ساتھے بنتے ہیں اور کبھی وہ قافلے بدلتا ہے اور کئی بار قافلے بناتا ہے، مگر رہتا اکیلاے کا اکیلا ہے۔ شاید کچھ بھی نیا نہیں ہے سوائے منجمد ماضی کے، جسے اکثر غلط فہمی سے مستتقبل سمجھ بیٹھتے ہیں۔
زندگی کی لکھی ہوئی کتاب کے حرف اپنے وقت پہ اترتے ہیں، کچھ بھی تو حادثاتی نہیں ہے اس دنیا میں، شاید وہ خود بھی۔۔ محبت کا طلبگار رہتا ہے، پانا چاہتا ہے اور کبھی پا کر کھو بیٹھتا ہے، مگر تنہائی اس پہ مہر کی طرح ثبت ہے۔
تنہائی انسان کا مقدر ہے
19 Saturday Nov 2016